دنيا بهر ميں تقريبا ڈيڑه بلين مسلمان بستے ہيں۔ فرض کيجئے اگر ان ميں سے صاحب استطاعت ايک بلين افراد زندگي ميں کم سے کم ايک مرتبہ اسلام کا پانچواں رکن [حج] ادا کرنا چاہيں تو موجودہ وسائل کے اندر اتني بڑي تعداد کو حج کرانے کے لئے 500 برس درکار ہوں گے۔ دو ملين افراد کو سالانہ حج کرايا جا سکتا ہے کيونکہ في الوقت مکہ شہر اتني ہي تعداد ميں حجاج کو اپنے اندر سمونے کي صلاحيت رکهتا ہے۔ مناسک حج کي ادائي چونکہ مخصوص وقت اور مقامات پر ممکن ہوتي ہے، اس لئے اس فريضہ کا کوئي متبادل تلاش نہيں کيا جا سکتا۔ يہ بهي ايک کهلي حقيقت ہے کہ آنے والے برسوں ميں مختلف توسيعي منصوبوں اور انتظامات ميں مزيد بہتري کے باوجود ايک سيزن ميں پانچ ملين افراد سے زيادہ لوگوں کو حج نہيں کرايا جا سکتا۔ اگر ايسا ہو جائے تو دنيا بهر کے مسلمانوں کي ايک تہائي تعداد اگلے 100 برسوں ميں حج کرنے مکہ جا سکے گي۔ مسلمانوں کي بڑي اکثريت کي دلي خواہش پوري کرنے کي ممکنہ صورت عازمين حج کے بجائے عمرہ زائرين کي تعداد ميں اضافہ ہے۔ في الوقت عمرہ زائرين کي سالانہ تعداد سات ملين ہے، تاہم سعودي حکومت کے پروگرام ويژن 2030 ميں اسے 30 ملين سالانہ کرنے کا پروگرام ہے۔ الوالعزم منصوبہ ويژن 2030 الوالعزمي کا مظہر پروگرام ہے جس کي تکميل کے لئے بہت سي سروسز اور متعلقہ سہوليات کو ترقي دينا مقصود ہے۔ نگراني کرنے والے اعلي حکومتي اداروں کي صلاحيت کار کا جائزہ لئے بغير اس ويژن کو شرمندہ تعبير نہيں کيا جا سکتا۔ ميں سمجهتا ہوں کہ منصوبہ بندي کي حکمت عملي تبديل کرنے کي ضرورت ہے جس ميں زائرين کو مکہ کے وسط ميں جمع کرنے کے بجائے انہيں مضافاتي علاقوں ميں پهيلايا جائے۔ کيا دنيا بهر سے 30 ملين زائرين سالانہ مکہ آئيں گے؟ يقينا، آئيں گے تاہم حج اور عمرہ کے موقع پر سيکيور8ي اور سلامتي سے متعلق خدشات برقرار رہيں گے۔ فطري بات ہے کہ ايسے منصوبے کي وجہ سے مکہ ميں پورا سال سيکيور8ي الر8 رہے گا۔ اس منصوبے پر عمل درآمد کي صورت ميں سعودي عرب کے اندر سے عمرہ اور حج ادا کرنے والوں کي تعداد ميں کئي گنا اضافہ ہو گا۔ سعودي حکومت نے دنيا کي سب سے بڑي ايجنئرنگ اور تعميراتي مہارت کو بروئے کار لاتے ہوئے متعدد مقامات مقدسہ کي توسيع مکمل کر لي ہے۔ اس توسيع کي برکت سے ان ميں اب کئي ملين مسلمان زائرين بيک وقت عبادت کر سکتے ہيں۔ انہي جگہوں کو سال بهر لاکهوں زائرين کے لئے کهلا رکهنے اور اللہ کے مہمانوں کي ميزباني کے لئے وسيع رہائشي سہوليات کے حامل ايک نئے شہر کي تعمير ناگزير ہو گئي ہے۔ حکومت اپنے کارکردگي اور ترجيجات پر نظر ثاني سے اس کام کو بہتر بنا سکتي ہے۔ في الوقت حکومت زيادہ سے زيادہ سہوليات فراہم کر رہي ہے تاہم اب اس کام ميں نجي شعبے کو شامل کرنے کا فيصلہ کر ليا گيا ہے۔ حکومت کا کام منصوبہ بندي اور اس کي نگراني ہے۔ نيز ايک مبصر اور زيرک اکاون8ن8 کے طور پر بهي حکومت سارے عمل پر نظر رکهے۔ ايک نيا شہر ساري صورتحال اس بات کي متقاضي ہے کہ مقدس شہر کي وسعت کو دوگنا کرنے کے لئے ايک نيا شہر مکہ آباد کيا جائے۔ نجي شعبے کے لئے بهي اس ميں بہت زيادہ مواقع ہوں گے۔ نيا شہر مکہ کے اندر 8ريفک کے رش کو کم کرنے ميں مدد دے گا۔ مکہ في الوقت سنگلاخ چ8انوں ميں کنکري8 کي عمارتوں کا ايک جنگل بن چکا ہے۔ ميري رائے ہے کہ حرم کے گرد علاقے سے جدہ کي جانب باہر نکل کر اس عظيم الشان منصوبے پر عمل کيا جا سکتا ہے۔ مقدس شہر کے وسط ميں تعميرات پر پابندي سے رش کي صورت حال پر قابو پانے ميں مدد ملے گي۔ نيز زائرين کي نقل وحرکت اور مختلف سلامتي سے متعلق سہوليات فراہم کرنے والے اداروں کو اپنا کام کرنے ميں آساني ہو گي۔ مکہ شہر کے وسط سے داخلي راستے تک 20 کلومي8ر کا فاصلہ ہے جہاں سيکڑوں ہو8ل، دکانيں اور سہوليات تعمير کي جا سکتي ہيں جو 30 ملين زائرين کي ميزباني کے لئے کافي ہوں گے۔ اس سے مکہ کے وسطي علاقے پر دباو کم ہو گا۔ نئي 8رين سروس مواصلات کي بہتر سہولت فراہم کرے گي۔ يہ سہوليات اور ہو8ل پورا سال کاروبار کريں گے جس کي وجہ سے نجي شعبہ بهي وہاں سرمايہ لگانے کے لئے تيار ہو گا۔ حج اور عمرہ کے ماس8ر پلان تيار کرنے والوں کے لئے سب سے بڑا چيلنج دنيا بهر کي مسلم آبادي کي خواہشات کي تکميل ہو گا۔ عمرہ ادا کرنے والوں کي تعداد ميں تين گنا اضافہ ہو گا۔ اللہ کرے حکومت اپنے منصوبے کو تيز کرے اور مذہبي، سياسي اور معاشرتي حوالوں سے ان کي جلد از تکميل کو اپني ترجيح اول بنا لے۔ عبدالرحمان الراشد عالمي شہرت يافتہ صحافي ہيں۔ وہ لندن سے شائع ہونے والے عرب روزنامے الشرق الاوسط کے ايڈي8ر انچيف اور العربيہ نيوز چينل دبئي کے جنرل مينجر رہ چکے ہيں۔ الشرق الاوسط کے ساته اب بهي کالم نگار کي حيثيت سے ان کي وابستگي برقرار ہے اور وہ اس کے ليے باقاعدگي سے کالم لکهتے ہيں۔