خليج کا سفارتي بحران 2018ء تک طول پکڑ سکتا ہے اور اس دوران ميں قطر ميں خوراک اور اشيائے ضروريہ کي قلت ہوجائے گي اور اس خليجي رياست ميں سول بد امني شروع ہوسکتي ہے۔ يہ ايک خصوصي تحقيقي پيپر کا ماحصل ہے جو ''قطر : عالمي سلامتي اور استحکام کانفرنس ‘‘کے منتظمين نے شائع کيا ہے۔يہ کانفرنس لندن ميں 14 ستمبر کو منعقد ہورہي ہے۔اس پيپر ميں يہ کہا گيا ہے کہ اس بحران کے جلد خاتمے کے کوئي آثار نظر نہيں آ رہے ہيں۔ واضح رہے کہ خليج تعاون کونسل کے تين رکن ممالک سعودي عرب ، متحدہ عرب امارات اور بحرين کے علاوہ مصر نے پانچ جون سے قطر کا بائيکا8 کررکها ہے۔ان چاروں ممالک نے قطر پر دہشت گردي کي حمايت اور دہشت گردوں کي مالي معاونت کا الزام عايد کيا تها اور اس کو بائيکا8 کے خاتمے کے ليے تيرہ شرائط پيش کي تهيں مگر اس نے يہ شرائط تسليم نہيں کي ہيں۔ اس مطالعے کے مطابق ان چاروں ممالک کے معاشي مقاطعے سے قطر ميں نماياں اقتصادي اثرات مرتب ہوئے ہيں اور وہاں خوراک اور اشيائے ضروريہ کي قلت ہوچکي ہے۔سماجي افراتفري کے آثار نمودار ہورہے ہيں اور قطري سکيور8ي فورسز کي جبر واستبداد کي کارروائيوں ميں بهي اضافہ ہوگيا ہے۔ قطري حزب اختلاف کے ترجمان خالد الحائل نے کہا ہے کہ '' اس آزادانہ تحقيق سے يہ ظاہر ہوتا ہے کہ قطري عوام بائيکا8 کے بعد کيسے مسائل کا سامنا کررہے ہيں‘‘۔ کانفرنس کے منتظمين کے مطابق لندن ميں ہونے والے اس اجتماع ميں دنيا بهر سے تعلق رکهنے والي سيکڑوں نامور سياسي شخصيات ، پاليسي ساز ، ماہرين تعليم ، تبصرہ نگار اور قطري شہري شرکت کريں گے اور وہ قطر ميں جمہوريت ،انساني حقوق کي صورت حال ، پريس کي آزادي اور انسداد دہشت گردي ايسے موضوعات پر تبادلہ خيال کريں گے۔اس کانفرنس کا اہتمام قطر کي اصلاح پسند شخصيت الحائل اور ديگر متعدد اصلاح پسند قطريوں نے کيا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس علاقائي بحران کا خاتمہ اور قطر کا مستحکم مستقبل چاہتے ہيں۔