الأمير محمد بن ناصر يدشن المجمع الأكاديمي الشرقي بجامعة جازان    إحباط تهريب 352275 قرصاً من مادة الإمفيتامين المخدر في تبوك    «روشن» شريك استراتيجي للنسخة الرابعة لمنتدى مستقبل العقار 2025    أمير الشرقية يكرم الداعمين لسباق الشرقية الدولي السادس والعشرين للجري    محافظ الخرج يستقبل مدير مكافحة المخدرات    أنغولا تعلن 32 حالة وفاة بسبب الكوليرا    تكريم 850 طالبًا وطالبة بتعليم الطائف    توقيع شراكة بين جامعة الإمام عبدالرحمن بن فيصل وجمعية هجر الفلكية    جامعة حائل تستضيف بطولة ألعاب القوى للجامعات    الشيباني: الأكراد تعرضوا للظلم وحان بناء دولة المساواة بين السوريين    صندوق الاستثمارات العامة وشركة "علم" يوقّعان اتفاقية لاستحواذ "علم" على شركة "ثقة"    استشهاد 10 فلسطينيين في جنين    500 مليار دولار في البنية التحتية للذكاء الاصطناعي بالولايات المتحدة    فرصة هطول أمطار رعدية على عدة مناطق    ارتفاع أسعار الذهب إلى 2748.58 دولارًا للأوقية    كعب «العميد» عالٍ على «الليث»    الاتحاد والشباب.. «كلاسيكو نار»    وفاة مريضة.. نسي الأطباء ضمادة في بطنها    انخفاض في وفيات الإنفلونزا الموسمية.. والمنومون ب«العناية» 84 حالة    محافظ الخرج يزور مهرجان المحافظة الأول للتمور والقهوة السعودية    وزير الخارجية من دافوس: علينا تجنّب أي حرب جديدة في المنطقة    سكان جنوب المدينة ل «عكاظ»: «المطبّات» تقلقنا    10 % من قيمة عين الوقف للمبلّغين عن «المجهولة والمعطلة»    سيماكان: طرد لاعب الخليج «صعّب المباراة»    دوري" نخبة آسيا" مطلب لجماهير النصر    خادم الحرمين وولي العهد يُعزيان الرئيس التركي في ضحايا حريق «منتجع بولو»    حماية البيئة مسؤولية مشتركة    أبواب السلام    إنستغرام ترفع الحد الأقصى لمقاطع الفيديو    قطة تتقدم باستقالة صاحبتها" أون لاين"    تعديل قراري متطلبات المسافات الآمنة حول محطات الغاز.. مجلس الوزراء: الموافقة على السياسة الوطنية للقضاء على العمل الجبري بالمملكة    ولي العهد يرأس جلسة مجلس الوزراء    المكاتب الفنية في محاكم الاستئناف.. ركيزة أساسية لتفعيل القضاء المؤسسي    تأسيس مجلس أعمال سعودي فلسطيني    علي خضران القرني سيرة حياة حافلة بالعطاء    إيجابية الإلكتروني    شيطان الشعر    «موسم العرمة» .. طبيعة ساحرة وتجربة استثنائية    وفد "الشورى" يستعرض دور المجلس في التنمية الوطنية    وفاة الأمير عبدالعزيز بن مشعل بن عبدالعزيز آل سعود    كيف تتخلص من التفكير الزائد    عقار يحقق نتائج واعدة بعلاج الإنفلونزا    تأملات عن بابل الجديدة    حفل Joy Awards لا يقدمه إلا الكبار    بيع المواشي الحية بالأوزان    خطة أمن الحج والعمرة.. رسالة عالمية مفادها السعودية العظمى    الرئيس ترمب.. و«إرث السلام»!    "رسمياً" .. البرازيلي "كايو" هلالي    الدبلوماسي الهولندي مارسيل يتحدث مع العريفي عن دور المستشرقين    بيتٍ قديمٍ وباب مبلي وذايب    متلازمة بهجت.. اضطراب المناعة الذاتية    في جولة "أسبوع الأساطير".. الرياض يكرّم لاعبه السابق "الطائفي"    مفوض الإفتاء في جازان: المخدرات هي السرطان الذي يهدد صلابة نسيجنا الاجتماعي    سعود بن نايف يكرم سفراء التفوق    فهد بن محمد يرأس اجتماع «محلي الخرج»    نائب أمير تبوك يتسلم التقرير السنوي لفرع وزارة الموارد البشرية    برئاسة نائب أمير مكة.. لجنة الحج تستعرض مشاريع المشاعر المقدسة    محافظ جدة يطلع على برامج إدارة المساجد    







شكرا على الإبلاغ!
سيتم حجب هذه الصورة تلقائيا عندما يتم الإبلاغ عنها من طرف عدة أشخاص.



قرباني ايک پيغام
نشر في عكاظ يوم 04 - 09 - 2017

حج يا عيد الاضحي کے موقع پر قرباني دين کےشعائرميں سےايک اہم شعاراور عظيم عبادت ہےہي نہين حضرت ابراہيم ؑ کي يادگار بهي ہے، اسلام نےجانور کو خالص اللہ کے لئے قربان(ذبح) کرنے کا حکم ديا اور غير اللہ کے لئے ذبح کئے جانے والے جانور کے گوشت کو حرام قرارديا جانور پراللہ کا نام نہ لينے کي چند صورتيںہيں مثلاً، جانور طبعي موت مرے، يا کسي حادثہ وغيرہ کا شکارہوجائے يا جانور کو ذبح کرتے وقت اللہ کا نام نہ ليا جا ئے، قرآن کريم ميں ان تمام صورتوں کو ناجائز اور حرام قرار دياگيا ہے، قرباني اللہ کي رضاجوئي اور اس کي خوشنودي کا ايک اہم ذريعہ ہےاسلئے حديث ميں جناب نبي کريم صلى الله عليه وسلم نے فرمايا کہ عيد الاضحي کےايام ميں قرباني سے زيادہ کوئي عمل اللہ کے نزديک پسند يدہ نہيں ہے قرباني شريعت ِ مطہر ہ کا ايک اہم حصہ ہے، جس کي پوري وضاحت سنت نبوي ميں موجود ہے، اور يہ وہ عظيم الشان عمل ہےجسے اللہ کےصلى الله عليه وسلمنے سنت ابراہيمي سےتعبيرکياہے، اللہ رب العزت نےان کي اس عظيم قرباني کو قيامت تک کے لئے يادگار بنا ديا، اور پوري امت ميں اس کو جاري فرمايا، قرآن مجيد ميں اللہ نے اپنے پيارے نبي صلى الله عليه وسلمکو حکم ديا ہے ''فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ‘‘ اے محمد صلى الله عليه وسلم اپنے رب کے لئے نماز (عيد) پڑهو اور نحر کرو (جانور کي قرباني کرو) اس امرِ خداوندي کو بجالاتے ہوئے رسو ل اللہ صلى الله عليه وسلم نے ہر سال قرباني کرنے کا اہتمام فرماتے تهے، اور صحابہ کرام کو بار ہا اس کي تاکيد فرماتے تهے قرباني عبديت اور تواضع و انکساري کا مظہر ہے، جس سےتکبر اور بڑائي دل سے نکلتي ہے ايک مسلمان بغير چون چرا کے محض اپنے رب کے حکم کو بجالاتےہوئے جانور کو ذبح کرتاہے، اس کے پيش نظر قرباني کي حکمتيں نہيں ہوتيں کہ جانور ذبح کيوں کياجارہا ہے-
اس سے انسان کوکيا فائدہ ہوگا وغيرہ، اس کے دل و دماغ ميں صرف حکمِ خداوندي کي تعميل ہوتي ہے، جس کو بجالانا وہ اپني سعادت اور خوش بختي تصور کرتا ہے ، جب حضرت ابراہيم ؑ کو بذريعہ خواب اپنے بي8ے کو ذبح کرنے کا حکم ہوا تو انہوں نے اللہ سے حکم کي حکمت نہيں پوچهي، بلکہ حکمِ خداوندي کي تعميل ميں اپنے بي8ے کو اس پر آمادہ کرکے گلے پر چهري چلادي، تعميل حکم کا يہ انداز اللہ کو اس قدر پسند آيا کہ قيامت تک کے لئے اس کو جاري فرماديا، امام غزالي ؒ فرماتےہيں کہ زمين کو جوتتے وقت جانور کو يہ معلوم نہيں ہوتا کہ زمين کيوں جُوتي جارہي ہے، اسے تو صرف يہ پتہ ہوتا ہےکہ اس سے کچه کام ليا جارہا ہے، يعني جانور کو حکم کا پتہ ہوتا ہےحکمت کا پتہ نہيں، اور اپنے مالک کے حکم کو برابر بجالاتا ہے، (کيميائے سعادت) قرباني کے وقت ہم ہزاروں جانور محض خالق ِ کائنات کے حکم پر ذبح کرتےہيںتو اس سے عبديت کا اظہار ہوتا ہے، يہي عبديت زندگي کے ہر شعبے ميں مطلوب ہے، کاش کہ ہم اس بات کو سمجهتے ۔
اخلاص اور حسن نيت عمل صالح کے مقبول ہونے کے لئے اولين شرط ہے، جو شخص نام و نمود اور سستي شہرت حاصل کرنے کےلئے عمل صالح کرتاہے اللہ تعالي کي بارگاہ ميں اس کے عمل کي کوئي وقعت نہيں ہے، قيامت کے روز يہ عمل سرابِ محض ثابت ہوگا، قرباني جيسے عظيم الشان عمل کو انجام ديتے وقت تصحيح نيت پر کافي زور ديا گيا ہے، ، قرآن و حديث ميں واضح الفاظ ميں اس بات کي تاکيد کي گئي ہے، چنانچہ اللہ رب العزت نے فرمايا: ''لَنْ يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ‘‘ اللہ کو ہرکز تمہارے جانور کا گوشت اورخون نہيں پہنچے گا بلکہ اس تک تو تمہارے دلوں کاتقوي( نيت) پہنچے گي (الحج 37 ) يہي حکم دوسري تمام عبادات کا ہے کہ نماز کي نشست و برخاست کرنا اور بهوکا پياسا رہنا اصل مقصود نہيں؛ بلکہ مقصود اصلي اللہ تعالي کے حکم کي تعميل دلي اخلاص و محبت کے ساته ہے، اگر يہ عبادات اس اخلاص و محبت سے خالي ہيں تو صرف صورت اور ڈهانچہ ہے روح غائب ہے ؛مگر عبادات کي شرعي صورت اور ڈهانچہ بهي اس لئے ضروري ہے کہ حکم رباني کي تعميل کيلئے اس کي طرف سے يہ صورتيں متعين فرما دي گئي ہيں(معارف القرآن جلد6 ص267) اسلام ميں تصحيح نيت کي بڑي اہميت ہے بلکہ اُسي پر تمام اعمال کا مدار رکها گيا، قرباني جيسي عظيم عبادت کے ذريعہ يہ چاہا جارہا ہےکہ زندگي کے تمام اعمال صحيح نيت کے ساته ادا ہو اور ہر عمل اس خالق ومالک کے لئےخاص ہو جس نے ہميں عدم سے وجود بخشا۔
قرباني قرب سے مشتق ہے اور قرباني کے ذريعہ بندہ اللہ عز و جل کا قرب حاصل کرتا ہے، قرباني کي اس عمل سے ہميں يہ پيغام ديا جارہا ہےزندگي کے ہرلمحہ اللہ کے قرب کي فکر کرني چاہئے اور قرب ِ خداوندي کے لئے اپنا سب کچه قربان کرنا چاہئے، جيسے حضرت ابراہيم اللہ کي محبت اور اس کي رضاو خوشنودي کے لئے اپنا گهر بار، ملک و وطن، عزيز و اقارب، بيوي بچےسب کچه قربان کردئےحتي کہ اپنے بي8ے(جو بڑهاپے کا سہارا، ضعيفي کا آسراتها) کے گلے پر چهري چلانے سے بهي تامل نہيں کئے، اور پوري دنيا کےانسانوں کے لئے ايک مثال قائم کردي،اور يہ بتلادئے کہ قرباني محض جانور کے گلے پر چهري چلانے اور اس کا خون بہانے کا نام نہيں بلکہ قرباني اپني خواہشات اور جذبات کو قربان کرنے اور اپني محبوب ترين چيزوں کو اللہ کے راستہ ميں ل8انے اور اپني قوت و توانائي کو اس کے دين کي خدمت ميں صرف کرنے اور نفس کو طاعات کي طرف پهيرنےکا نام ہے، اور جب تک اس طرح کي کيفيت پيدا نہ ہو قرباني کا اثر ہماري زندگي ميں ظاہر نہيں ہوگا اور جسے قربِ خداوندي کي يہ دولت نصيب ہوجاتي ہے تو کم از کم اس کا حال يہ ہوتا ہےکہ اسے ہميشہ اللہ کا دهيان رہتا ہے،اور اس کے تفويض کردہ تمام فرائض و احکام کي بجا آوري ميں اس سے کسي قسم کي غفلت اور کوتاہي سرزد نہيں ہوتي ہے۔ پهر يہ کہ قرباني کے صحيح ہونے کے لئے جانور کا شريعت کے مقررکردہ عمر کو پہنچنا اور صحت مند ہونا ضروري ہے، عيب دار جانور کي قرباني شريعت مطہرہ ميں ناپسنديدہ قرار ديا گيا ہے، اس سے ہميں يہ تربيت دي جارہي ہے کہ اللہ کے راہ ميں خرچ کئے جانے والا مال حلال اور طيب ہو چنانچہ قرآن مجيد ميں اللہ نے ارشادفرمايا: '' يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ‘‘ اے ايمان والو!خرچ کرو اپني کمائي ميں سے اور زمين کي پيداوار ميں سے حلال اور پاکيزہ چيزيں ( البقرۃ 267) جس طرح اہتمام سے جانور کو جانجا اور پرکها جا تا اور عمدہ سے عمدہ جانور قرباني ميں دينے کي فکر کي جاتي ہے ۔
جانور کو ذبح کرنے کے بعدشريعت مطہرہ ميں گوشت کي تقسيم کے سلسلہ ميں تين حصے بنانے کا حکم ديا گيا، ايک حصہ غرباء و مساکين کے لئے دوسرا حصہ رشتہ داروں اور پڑوسيوں کے لئے اور تيسرا حصہ اپنے اور اپنے اہل وعيال کےلئے، اگرچہ يہ حکم استحبابي ہے ليکن اس ميں ايک لطيف اشارہ ہے کہ زندگي کے تمام امور ميں انصاف کي رسّي کو مضبوطي سے پکڑے رہناچاہئے اور انصاف کے تقاضوں کو ہميشہ پورا کرتے رہنا چاہئے، يہي آپسي محبت کو برقرار رکهنے کا ذريعہ ہے اورتقوي کے زيادہ لائق اور مناسب ہے آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمايا ميري امت اس وقت تک سر سبز رہے گي اب تک اس ميں تين خصلتيں باقي رہيں گي ايک تو يہ کہ جب وہ بات کريں تو وہ سچ بوليں گے دوسرا جب وہ فيصلہ کريں گے تو انصاف کو ہاته سے نہ جانے ديں گے تيسرا يہ کہ جب ان سے رحم کي درخواست کي جائے گي تو کمزور پر رحم کريں گےباور عدل وانصاف کي رسّي کو مضبوطي سے پکڑے رہنے والوں کي ہمت افزائي کرتے ہوئےآپ صلى الله عليه وسلم ارشاد فرمايا انصاف کرنے والوں کو قرب الہي ميں نوري ممبر عطا ہوں گے( مسلم شريف کتاب الامارۃحديث نمبر1828 ) پهريہ کہ قرباني کے گوشت کي تقسيم ميں غريبوں، مسکينوں، پڑوسيوں اور رشتہ داروں کا حق بهي رکها گيا ہے جس پتہ چلتا ہےايام قرباني ميں جس طرح دوسروں کا خيال رکها جاتا ہےاسي طرح زندگي کےتمام مراحل ميں ايک دوسري کي مدد اور دلجوئي کرنا چاہئے کيونکہ اسلام ہمدردي اور خيرخواہي کانام ہے، قرباني کے اس عمل کے ذريعہ ہم کو يہ ادب سکهايا جارہا ہے اور ہم سے يہ مطالبہ کياجارہا ہے کہ ہر حال ميں محتاجوں کي مدر کرنا اور ان کي ضرورتوں کي تکميل کرنا عبادت کے بعد سب سے اہم حکم ہے، اسي لئے قرآن و حديث ميں اس کي بڑي تاکيد آئي ہے، اور رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے اپنے طرز عمل سے يہ ثابت کرکے بتلاديا ہے کہ دوسروں کي ہمدردي اور دلجوئي کرکے بندہ قربِ خداوندي کے اس بلند مرتبہ پر فائز ہوتا ہے جو ديگر اعمال کے ذريعہ بڑي مشکل سے حاصل ہوتے ہيں، اس نفسا نفسي کے دور ميں ہمدردي اور غمخواري، دلجوئي اور دلچسپي جيسے صفات کي اشد ضرورت ہے۔
غرض يہ کہ قرباني اللہ تعالي کي وہ عظيم عبادت ہے جس کے ہر پہلوميں انسان کے لئے کچه نہ کچه نصيحتيں موجود ہيں، جس پر عمل کرکے انسان اپنے اندروني نظام کي اصلاح کرسکتا ہے، جب تک بندہ کے اندر قرباني کے جانور کي طرح اپنے آپ کو م8انے کا جذبہ پيدا نہ ہو اس وقت تک وہ بارگاہِ رب العالمين ميں مقبول نہيں ہوگا، اور قرباني کے اس پورے عمل سے ہميں يہ پيغام ملتا ہے کہ زندگي کے ہر موڑ اپنا سب کچه يہاں تک کہ اپنے جذبات اور خواہشات کو بهي اللہ کے لئے قربان کرنا اوراپنے کو کمتر اور حقير سمجه کر زندگي گذارنا يہي حقيقي مومن کي نشاني ہے اور ايسے ہي بندہ کو خالق کائنات کي رضا و خوشنودي ميسر ہوتي ہے۔


انقر هنا لقراءة الخبر من مصدره.