اللہ تعاليٰ قرآن مجيد سورة الحج ميں ارشاد فرماتے ہيں:۔ "اور ہم نے ہر امت کے لئے قرباني مقرر کر دي ہے تاکہ وہ اللہ کا نام ليں ، ان جانوروں پر جو ہم نے ان کو عطا کئے ہيں" قرآن مجيد ميں قرباني کيلئے تين لفظ آئے ہيں۔ ايک نسک اور دوسرا نحر تيسرا قربان ۔ نسک: يہ لفظ قرآن مجيد ميں متعدد مقامات پر مختلف معاني ميں استعمال ہوا ہے کہيں عبادت، کہيں اطاعت اور کہيں قرباني کے لئے جيسے سورہ حج کي آيت 34 ميں فرمايا:۔ "اور ہم نے ہر امت کے لئے قرباني مقرر کر دي ہے" يہاں يہ لفظ جانور کي قرباني کے لئے ہي آ رہا ہے کيونکہ اس کے فوراً بعد من بهيمتہ الانعام کا لفظ ہے يعني ان چوپايوں پر اللہ کا نام لے کر قرباني کريں جو اللہ نے ان کو عطاءکئے۔ دوسرا لفظ قرباني کے لئے قران مجيد ميں نحر کا آيا ہے جو سورة الکوثر ميں ہے:۔ "يعني اپنے رب کے لئے نماز پڑهيں اور قرباني کريں" اور قرباني کا لفظ قرآن مجيد ميں سورہ مائدہ کي 27ويں آيت ميں آيا ہے جہاں حضرت آدمؑ کے دونوں بي8وں ہابيل اور قابيل کے واقعہ کا ذکر ہے۔ "يعني آپ ان لوگوں کو آدم کے دو بي8وں کا سچا واقعہ سنائيے کہ جب دونوں نے قرباني کي تو ان ميں سے ايک کي قرباني قبول ہوئي اور دوسرے کي قبول نہ ہوئي" ہم اردو ميں لفظ قرباني ہي عام طور پر استعمال کرتے ہيں۔ اسلامي اصطلاح ميں قرباني کا ايک خاص مفہوم ہے جس کا تذکرہ امام راغب اصفہاني نے مفردات القرآن ميں فرمايا ہے کہ:۔قرباني ہر اس چيز کو کہا جاتا ہے جس کے ذريعہ اللہ کا قرب حاصل کيا جائے، چاہے وہ جانور ذبح کرکے ہو يا صدقہ و خيرات کرکے۔ چنانچہ عرف عام ميں قرباني کا لفظ جانور کي قرباني کے لئے بولا جاتا ہے۔ قرآن حکيم کے مطابق کسي حلال جانور کو اللہ تعاليٰ کا قرب حاصل کرنے کي نيت سے ذبح کرنا آدمؑ ہي کے زمانے شروع ہوا۔ قرآن مجيد کے مطابق پہلے انبياءکے دور ميں قرباني کے قبول ہونے يا نہ ہونے کي پہچان يہ تهي کہ جس قرباني کو اللہ تعاليٰ قبول فرما ليتے تو ايک آگ آسمان سے آتي اور اس کو جلا ديتي۔ جب رسول اللہ نے مدينہ طيبہ ميں مقيم يہوديوں کو ايمان لانے کي دعوت دي تو سورہ آل عمران کي آيت 183ميں بيان فرمايا کہ انہوں نے کہا:۔ "يعني اللہ تعاليٰ نے ہم سے يہ طے کر ليا ہے کہ ہم کسي رسول پر اس وقت تک ايمان نہ لائيں جب تک کہ وہ ہمارے پاس ايسي قرباني نہ لائے جسے آگ کها لے" حالانکہ يہ يہودکي انتہائي غلط بياني تهي ليکن امت محمديہ پر اللہ تعاليٰ کا يہ خاص انعام ہے کہ قرباني کا گوشت ان کے لئے حلال کر ديا گيا ليکن ساته ہي يہ وضاحت فرما دي کہ قرباني کا مقصد اور اس کا فلسفہ گوشت کهانا نہيں بلکہ ايک حکم شرعي کي تعميل اور سنت ابراہيمي ؑ پر عمل کرتے ہوئے ايک جان کو اللہ کي راہ ميں قربان کرنا ہے۔ چنانچہ واضح الفاظ ميں فرمايا:۔ "يعني اللہ کے پاس ان قربانيوں کا گوشت نہيں پہنچتا اور نہ خون پہنچتا ہے بلکہ تمہارا تقويٰ پہنچتا ہے" يعني قرباني کا گوشت کهانا کوئي مقصد نہيں بلکہ سنت ابراہيمي پر عمل کرتے ہوئے خالص اللہ کے لئے جان قربان کرنا اصل مقصد ہے قرآن حکيم ميں ارشاد ہوا: "يعني جب ابراہيمؑ کا بي8ا اسماعيل ؑاس قابل ہو گيا کہ باپ کے ساته چل کر ان کے کاموں ميں مدد گار بن سکے تو حضرت ابراہيمؑ نے کہا: اے ميرے پيارے بي8ے! ميں نے خواب ميں ديکها ہے کہ ميں تجهے ذبح کر رہا ہوں، بتاؤ کہ تمہاري کيا رائے ہے؟ سعادت مند بي8ا بهي تو خليل اللہ کا بي8ا تها۔ کہنے لگے: ابا جان آپ وہ کام کر گزريں جس کا آپ کو حکم ديا گيا ہے۔ آپ انشاءاللہ مجهے صبر کرنے والوں ميں سے پائيں گے۔ "جب باپ بي8ا قرباني کے لئے تيار ہو گئے اور باپ نے بي8ے کو قربان کرنے کے لئے چہرہ کے بل کرو8 پر ل8ا ديا" تو ارشاد باري تعاليٰ ہے:۔ "اے ابراہيم آپ نے خواب کو سچا کر دکهايا، اس کے ساته ہي ايک دنبہ حضرت اسماعيلؑ کے بجائے قرباني کے لئے نازل کر ديا" اللہ تعاليٰ نے اپنے محبوب پيغمبر ابراہيم خليل اللہ کے اس عمل کو پسند فرما کر قيامت تک ان کي ياد کو زندہ رکهنے کے لئے قرباني ہر صاحب استطاعت پر واجب کر دي، ابراہيم خليل اللہ کے کارناموں ميں سے جو چيزيں کسي خاص مقام کے ساته مخصوص ہيں وہ صرف ان مقامات پر حاجي حضرات کے لئے خاص کر دي گئيں، جس ميں جمرات ( کنکرياں مارنا) اور صفا و مروہ کے درميان چکر لگانا اور قرباني کرنا تمام امت مسلمہ کے استطاعت رکهنے والے افراد کے لئے واجب فرمايا۔ چنانچہ خود رسول اکرم اور تمام صحابہؓ اور پوري امت کے مسلمان ہر خطے اور ملک ميں اس پر عمل کرتے رہے اور قرباني کو شعائر اسلام ميں شمار کيا گيا۔ سورة حج کي آيت 36 ميں فرمايا:۔ "يعني قرباني کے اون8 اور گائے کو ہم نے شعائر اللہ يعني اللہ کي عظمت کا نشان بنايا ہے اس ميں تمہارے لئے خير ہے" اس لئے قرآن مجيد کي تعليم کے مطابق قرباني کا فلسفہ اور اس کي حقيقت يہ معلوم ہوئي کہ انسان قرباني کے ذريعہ اللہ تعاليٰ کے لئے جان قربان کرتا ہے، اس ميں گوشت کهانا مقصود نہيں اور نہ اس ميں ريا کاري دکهاوا آئے اور نہ کوئي اور وسوسہ آنے پائے، يہ خاص اللہ کے لئے جان اور مال کو قربان کرنا ہے۔ اور رسول اللہ کو يہ حکم ديا گيا جو امت کے ايمان کا حصہ ہے کہ: "آپ کہہ ديجئے کہ ميري نماز اور ميري قرباني اور ميري زندگي اور ميرا مرنا اللہ کے لئے ہي ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے" اللہ رب العزت ہميں اس اخلاص اور اس جذبہ سے قرباني کرنے کي توفيق عطا فرمائے۔