يمن گذشتہ تين سال سے جاري خانہ جنگي کے نتيجے ميں بدترين بحران سے دوچار ہوچکا ہے اور اقوام متحدہ نے اس کو دوسري عالمي جنگ کے بعد بدترين بحران قرار ديا ہے۔اس کي وجہ سے ہزاروں پيشہ ور گذشتہ ايک سال سے زيادہ عرصے سے کسي آمدن يا تن خواہ کے بغير گزارہ کر رہے ہيں۔ ملک کے تيسرے بڑے شہر تعز سے تعلق رکهنے والے ڈاک8ر عبداللہ سيف الحکيمي بهي ان يمنيوں ميں شامل ہيں۔وہ محکمہ صحت ميں ملازم ہيں ۔انهيں آخري مرتبہ 10 اگست 2016ء کو تن خواہ ملي تهي۔اب وہ گذشتہ ايک سال سے کسي ماہانہ آمدن سے محروم ہيں اور ان کي زندگي اجيرن ہوچکي ہے۔ ڈاک8ر حکيمي نے العربيہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتايا ہے کہ '' زندگي تو پہلے ہي بہت مشکل ہو چکي تهي کيونکہ ہم صرف تن خواہيں وصول کررہے تهے ليکن اب ہميں کچه بهي نہيں مل رہا ہے اور ہم صرف بنيادي ضروريات کے سہارے ہي زندہ ہيں‘‘۔ ڈاک8ر حکيمي نو افراد پر مشتمل خاندان کے واحد کفيل ہيں۔بہت سے دوسرے افراد بهي ان ايسي صورت حال سے دوچار ہيں۔انهوں نے بتايا کہ اسپتال کا عملہ پچاس سے زيادہ ملازمين پر مشتمل ہے اور ان سب کو بهي گذشتہ ايک سال سے زيادہ عرصے سے تن خواہيں نہيں ملي ہيں ليکن اس کے باوجود وہ لوگ کام کررہے ہيں کيونکہ اس محاصرہ زدہ شہر ميں ان کي بہت مانگ ہے۔ يمن ميں حوثي باغيوں کے دارالحکومت صنعاء پر قبضے کے بعد اس الميے کا آغاز ہوا تها۔حوثي باغيوں اور معزول صدر علي عبداللہ صالح کي وفادار فورسز نے گذشتہ دو سال سے تعز شہر کا محاصرہ کررکها ہے اور ان کي صدر عبد ربہ منصور ہادي کي وفادار فورسز کے ساته لڑائي جاري ہے۔ عرب دنيا کے اس غربت زدہ ملک ميں گذشتہ ڈهائي سال سے جاري لڑائي ميں دس ہزار سے زيادہ افراد ہلاک ہوچکے ہيں۔اب گذشتہ چند ماہ سے يمنيوں کو ہيضے کي وبا نے آليا ہے اور ہزاروں افراد ہيضے کا شکار ہوکر اسپتالوں ميں پڑے ہيں يا اپنے گهروں ميں زير علاج ہيں۔ملک ميں خوراک کي اشياء کم ياب ہو جانے کي وجہ سے ان کي قيمتيں آسمانوں سے باتيں کررہي ہيں اور يوں قحط جيسي صورت حال پيدا ہوچکي ہے۔اس پر مستزاد دن ميں کئي کئي گهن8ے بجلي کي بندش ہے۔ بہت سے کارکنان نے بتايا ہے کہ تن خواہوں سے محروم يمنيوں نے مقامي حکومت کے مراکز کے باہر دهرنے ديے ليکن انهيں حاصل وصول تو کچه نہ ہوا ہے۔ البتہ ان ميں سے بعض تو اس طرح احتجاج کے دوران زندگي کي قيد سے ہي آزاد ہو گئے۔ بعض لوگوں کا يہ کہنا ہے کہ تن خواہوں کا يہ بحران صدر عبد ربہ منصور ہادي کي حکومت کي جانب سے ملک کے مرکزي بنک کو جنوبي شہر عدن ميں منتقل کرنے سے پيدا ہوا ہے ليکن ہادي حکومت کا موقف ہے کہ دارالحکومت صنعاء پر قابض حوثي باغيوں نے مرکزي بنک کو لو8 ليا تها۔اس ليے انهوں نے اس کو عدن منتقل کيا تها مگر اس اقدام کے بعد بهي کچه تبديل نہيں ہوا ہے اور ملک بهر ميں ہزاروں سرکاري ملازمين تن خواہوں سے محروم ہيں۔ انساني حقوق کے ايک مقامي کارکن محمد الرميم کا کہنا ہے کہ رياست سے تن خواہوں پر انحصار کرنے والے دوسروں کي نسبت زيادہ مشکلات کا شکار ہوئے ہيں۔ان ميں سب سے زيادہ اساتذہ متاثر ہوئے ہيں کيونکہ ان کي تعداد دوسرے ملازمين کے مقابلے ميں کہيں زيادہ ہے اور صرف تعز شہر ميں اساتذہ کي تعداد پچپن ہزار ہے۔ 8يچرز سينڈيکي8 کے سيکري8ري جنرل عبدالرحمان مقطري کے مطابق گذشتہ سال اکتوبر سے تن خواہوں سے محروم اساتذہ نے ہفتے کے روز تعز شہر ميں ا حتجاجي مظاہرہ کيا تها اور ہادي حکومت سے تن خواہيں دينے کا مطالبہ کيا تها۔ ان کا کہنا تها کہ'' جنگ سے متاثرہ ملک ميں تن خواہوں کے بغير گزارہ کرنے کا آپ خود تصور کر ليں کہ ہم کيسے اپني زندگياں بسر کررہے ہيں۔ہم نے متعدد مرتبہ حکام سے تن خواہيں دينے کا مطالبہ کرچکے ہيں ليکن ان کے کانوں پر جوں تک نہيں رينگي‘‘۔ العربيہ انگلش نے سعودي دارالحکومت الرياض ميں مقيم ہادي حکومت کے اعليٰ عہدہ داروں سے اس موضوع پر بات کے ليے رابطے کي کوشش کي ہے ليکن ان کي جانب سے کوئي ردعمل موصول نہيں ہوا۔ قبل ازيں اسي سال يمن کے وزير اعظم احمد بن عبيد دغر نے يہ اعلان کيا تها کہ حکومت فوج اور سکيور8ي فورسز کو تن خواہيں ادا کرنے کے ليے ايک نظام وضع کرے گي اور تن خواہيں دينے کے ليے فنگر پرن8 کے نظام کو بروئے کار لائے گي ليکن انهوں نے دوسرے محکموں کے ملازمين کو واجبات ادا کرنے کاکوئي ذکر نہيں کيا تها۔ مارچ ميں ساحلي شہر الحديدہ ميں تن خواہ کي عدم ادائي کے شکار ايک استاد کي سڑک پر چلتے ہوئے موت کا الم ناک واقعہ بهي پيش آچکا ہے۔ ہوا يہ تها کہ محمد القہائم نامي استاد اپني پانچ بچيوں اور دو بي8وں کے ليے خوراک کي تلاش ميں شہر کي سڑکوں پر دوپہر تک مارے مارے پهرتے رہے تهے۔اس دوران وہ اچانک دهڑام سے زمين پر گر گئے اور جان جانِ آفرين کے سپرد کردي تهي ۔اس واقعے سے اساتذہ برادري ميں غم وغصے کي ايک لہر دوڑ گئي تهي مگر بہت سے يمني ان ايسي صورت حال کا شکار ہونے سے قبل اس سنگين مسئلے کا حل چاہتے ہيں۔