کردار کا تعين گفتار و معاملات سے ہوتا ہے۔ جو انسان ہميشہ سچ بولتا ہے، وہ فاتح اور کامياب رہتا ہے۔ وقتي مشکلات کے باوجود صدق و سچائي، انسان کو نجات و عافيت کي منزل پہ لے جاتي ہے۔ جهو8ا آدمي وقتي طور پر کچه فوائد حاصل کر بهي لے تو اس کا جهو8 بالآخر اسے ہلاکت کے گڑهے ميں لے ڈوبتا ہے۔ آنحضور صلي اللہ عليہ وسلم کا ارشاد ہے صدق نجات کا ذريعہ اور جهو8 باعث ہلاکت ہے‘‘۔ نبي اکرم صلي اللہ عليہ وسلم ہر لحاظ سے انسان کامل تهے۔ آپؐ کي حيات طيبہ سراسر نور و ہدايت اور حسن وجمال کا مرقع تهي۔ آپؐ نے زندگي بهر کبهي جهو8 نہيں بولا، حالانکہ جس معاشرے ميں آپؐ نے آنکه کهولي، اس کي بنياد ہي جهو8، غلط بياني اور دهوکہ دہي پر تهي۔ جهو8 کو اگر چہ عيب جانا جاتا تها مگر اس کا چلن اس قدر عام تها کہ معيوب ہونے کے باوجود اسے انسان کي ذہانت و فطانت اور ہوشياري و پُر کاري تصور کيا جانے لگا تها۔ رسولِ رحمت صلي اللہ عليہ وسلم نے ايسے معاشرے ميں آنکه کهولنے کے باوجود اپنے دامن کو ہميشہ اس آلودگي سے پاک صاف رکها۔ بچپن اور لڑکپن ميں بهي آپؐ کي يہ صفت اتني معروف اور نماياں ہوکر ضيا پاش ہوئي کہ معاشرے کا کوئي فرد نہ اس سے بے خبر رہا، نہ کبهي اس کا انکار اور نفي کرسکا۔ پوري قوم کے درميان آپؐ عنفوانِ شباب ہي ميں صادق وا مين کے القاب سے معروف ہوگئے تهے۔ آپؐ کي اس صفت کي بدولت بدترين مخالفتوں کے ادوار ميں بهي آپؐ کا ستارہ چمکتا رہا۔ چاليس سال کي عمر تک آپؐ پوري قوم کے درميان بلا استثناء، سب سے معزز و محترم شخصيت تهے۔ جب آپؐ نے چاليس سال کي عمر ميں اللہ کي طرف سے حکم ملنے پر اعلان نبوت کيا تو حالاک يکسر بدل گئے۔ پوري قوم آپؐ کي مخالفت ميں ا8ه کهڑي ہوئي۔ ہر قسم کا حربہ آپؐ کے خلاف استعمال کيا جانے لگا۔ کلفارہ جان کے دشمن بن گئے ليکن اس سارے عرصے ميں آپؐ کي صداقت کا انکار کوئي نہ کرسکا۔ کوہ صفا کے مشہور خطبے ميں آپؐ نے اپنا اصلي خطاب شروع کرنے سے پہلے لوگوں سے گواہي لي کيا تم لوگوں نے مجهے سچا پايا ہے يا جهو8ا تو مجمع بہ يک زبان پکار ا8ها کہ ہم نے آپ کو ہميشہ راست گو پايا ہے، آپ (صلي اللہ عليہ وسلم) نے کبهي جهو8 نہيں بولا۔ اس گواہي کے باوجود اسي مجلس ميں ابو لہب اور ديگر لوگوں نے بعد ميں دعوتِ حق سے انکار کيا، رسول اللہ کو جه8لايا اور نت نئے الزامات تراشے ليکن داعيِ حقؐ کے بارے ميں ان کي وہ پہلي گواہي قولِ فيصل بن کر تاريخ کا حصہ بن گئي اور لوگوں کے ذہن ميں ہميشہ پيوست رہي۔ قريش مکہ ميں آپؐ کا سب سے بڑا مخالف ابو جہل سمجها جاتا ہے۔ وہ بهي آکو جهو8ا کہنے کي ہمت نہ کرسکا۔ ايک مرتبہ عرب کي ايک دوسري معروف شخصيت اخنس بن شريق نے ابوجہل سے پوچها کہ تم جو (صلي اللہ عليہ وسلم ) کو جه8لاتے ہوئے تو کيا واقعي اسے جهو8ا سمجهتے ہو؟ جواب ميں اس نے کہا بخدا، ميں نہيں سمجهتا کہ محمد(صلي اللہ عليہ وسلم ) جهو8 بولتا ہے، ليکن تمهيں معلوم ہونا چاہئے کہ وہ بنو ہاشم ميں سے ہے اور ہم بنو مخزوم ہيں ۔ ہم ہميشہ سے ان کے روايتي حريف اور مد مقابل ہيں ۔ مہمان نوازي سے لے کر جنگ آرائي اور جود و سخا سے لے کر شعر و خطابت تک ہر ميدان ميں ہم نے ان کا مقابلہ کيا ہے، اب اس نے نبوت کا دعويٰ کيا ہے تو ہم اسے نبي مان کر اپني برتري سے دست بردار ہوجائيں ۔ بخدا، ايسا نہيں ہوسکتا۔ اللہ رب العالمين نے اسي واقعے کي جانب قرآن مجيد ميں کئي مقامات پر اشارہ کرکے آنحضورؐ کو حوصلہ ديا ہے۔ ارشاد باري ہے ''اے نبي (صلي اللہ عليہ وسلم )! ہميں معلوم ہے کہ جو باتيں يہ لوگ بناتے ہيں ، ان سے تمهيں رنج ہوتا ہے ليکن يہ لوگ تمهيں نہيں جه8لاتے بلکہ يہ ظالم در اصل اللہ کي آيات کا انکار کر رہے ہيں ۔ آپؐ کے حق ميں صداقت و امانت کي گواہي محض ابو جہل ہي نے نہيں دي بلکہ پوري قوم اس کي گواہ تهي نبي رحمت صلي اللہ عليہ وسلم نے اپني امت کو جو ہدايات ديں ، ان ميں راست بازي سب سے نماياں ہے۔ خود آپؐ چونکہ اس کي بہترين مثال تهے، اس لئے اللہ رب العالمين نے آپ کو ايسا رعب عطا فرمايا تها کہ بدترين دشمن بهي آپؐ کے سامنے آنکهيں جهکانے پر مجبور ہوجاتے تهے۔ سيرت کا مشہور واقعہ ہے کہ ابو جہل نے کسي سے اون8 خديدے تهے اور طے شدہ سودے کے مطابق وہ ان کي قيمت ادا کرنے ميں ليت و لعل سے کام لے رہا تها۔ لوگوں نے ازراہِ مذاق اس شخص نے کہا کہ اپني داد رسي کيلئے محمد(صلي اللہ عليہ وسلم) کے پاس چلے جاؤ ۔ کفا کا خيال تها کہ ابو جہل آپ (صلي اللہ عليہ وسلم ) کو خوب جلي ک8ي سنائے گا ليکن چشم فلک نے يہ منظر بهي ديکها کہ جب آنحضورؐ اس اجنبي کو ساته لے کر رئيس قريش کے پاس پہنچے اور فرمايا کہ اس کي رقم اسے ادا کردو تو ابو جہل نے بلا حيت و حجت اس کي پوري رقم ادا کردي۔ سنت رسولؐ کے مطابق ہميشہ سچ بولنے والے بندوں کو بهي اللہ کي طرف سے ايک خاص برہان حاصل ہوجاتي ہے، جو بدترين مخالفين پر بهي ان کا رعب اور دهاک قائم کرديتي ہے ۔ صدق و سچائي ايک اعليٰ صفت ہے۔ قرآن مجيد ميں اللہ تعاليٰ کا ارشاد ہے: ''اے لوگو! جو ايمان لائے ہو، اللہ کا تقويٰ اختيار کرو، سيدهي اور سچي بات کيا کرو، اللہ تمہارے اعمال درست کر دے گا اور تمہارے گناہوں کو معاف کر دے گا۔ جو شخص اللہ اور اس کے رسولؐ کي اطاعت کرے، بس وہي عظيم کاميابي کا مستحق ہے‘‘۔ ايک دوسرے مقام پر تمام اہل ايمان کو تقويٰ کي تلقين فرماتے ہوئے حکم ديا گيا: ''اے ايمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور سچے لوگوں کے ساتهي بن جاؤ‘‘۔ ہم اس نبي (صلي اللہ عليہ وسلم ) کي امت ہيں ، جس نے سچائي کي تعليم دي اور سچا بن کر ہر دوست اور دشمن سے اپنا سکہ منوايا۔ کسي کلمہ گو کيلئے جهو8 بولنا ہر گز جائز نہيں ۔ سچ بولنا اور اس پر قائم رہنا شيوۂ ايماني بهي ہے اور سچے رسولؐ کا سچا پيرو کار ہونے کا ثبوت بهي۔ آئيے ہم عہد کريں کہ ہميشہ سچ بوليں گے۔ اس سے قبل ہم سے جو کوتاہياں ہوئيں ، آئيے ہم سب اس پر اللہ سے توبہ کريں ۔ خود سچ پر قائم رہنے کے ساته ساته اپنے تمام اہل و عيال و وابستگان کو بهي اس کي تعليم دينا، اس کي برکات سے آگاہ کرنا اور جهو8 کي تباہ کاريوں سے متعارف کراکے اس سے اجتناب پر آمادہ و کار بند کرنا ہمارا فرض ہے۔ ان شاء اللہ ہميں اس کے نتيجے ميں خير اور بهلائي ملے گي اور اللہ ہميں ہر نقصان سے پناہ دے گا-